روزہ کھولنے کے بعد کی دعا

روزہ کھولنے کے بعد کی دعا ایک پسندیدہ عمل ہے جو شکر گزاری، عاجزی، اور خدا کے ساتھ تعلق کو سمیٹتا ہے جو مسلمان روزے کے ایک دن کے اختتام پر محسوس کرتے ہیں۔ یہ دعا خدا کے فراہم کردہ رزق کی تعریف کرنے اور اس کی برکتوں، رحمتوں اور بخششوں کے حصول کا ایک موقع ہے۔ یہ دن کی عبادت اور خود پر قابو پانے کے عمل پر غور کرنے کا ایک لمحہ ہے، اور بہت سی برکات کی پہچان ہے جنہیں اکثر سمجھا جاتا ہے۔

جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے اور رمضان کے مقدس مہینے میں دن کا روزہ ختم ہوتا ہے، مسلمان بے تابی سے اپنے روزہ افطار کرنے کے لیے ایک ایسے کھانے کے ساتھ جمع ہوتے ہیں جسے “افطار” کہا جاتا ہے۔ افطاری کے اس لمحے کو نہ صرف کھانے کے جسمانی استعمال سے نشان زد کیا جاتا ہے بلکہ ایک خاص دعا، یا دعا سے بھی نشان زد ہوتا ہے، جو گہری روحانی اور جذباتی اہمیت رکھتی ہے۔

روزہ کھولنے کے بعد کی دعا

(اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ) ( ابوداود)

ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ) ( ابوداود)

درحقیقت اس دعا کے الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ اشتباہ ہواہے کہ اس میں ماضی کے صیغے استعمال ہوئے ہیں :۔۔۔ ‘ میں نے آپ کے رزق سے روزہ افطارکیا’، اس سے یہ سمجھا گیا کہ یہ الفاظ افطار کے بعد ہی پڑھے جاسکتے ہیں، جب کہ عربی زبان کے قواعد کے اعتبار سے یہ ضروری نہیں ہے، بلکہ عربی زبان کا اسلوب ہے کہ جو کام قریب الوقوع یا یقینی ہو اُسے ماضی کے صیغے سے تعبیر کردیا جاتاہے

، چناں چہ اقامت کے کلمات میں ‘ قدقامت الصلاة’  کہاجاتاہے، جس کا مطلب ہے : ‘تحقیق نماز قائم ہوگئی’ ، حال آں کہ ابھی تو نماز شروع بھی نہیں ہوئی ہوتی، بلکہ چند لمحات کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کی جاتی ہے، لیکن صفوں کی درستی اور نماز کی مکمل تیاری کے بعد نماز کا قائم ہونا قریب الوقوع ہوجاتاہے؛

اس لیے کہاجاتاہے کہ تحقیق نماز قائم ہوگئی، اسی طرح جب روزہ افطار کرنا یقینی ہوجاتاہے اور افطار کا وقت مکمل ہونے پر روزہ دار افطار شروع کرنے لگتاہے تو عین اس وقت اس دعا کو پڑھنا عربی زبان کے قواعد وضوابط کے لحاظ سے درست ہے

ان میں سے دوسری دعا تو بلاتفاق افطار کے بعد پڑھنے کی ہے، اور پہلی دعا کے بارے میں احادیث میں کسی قسم صراحت نہیں ہے کہ یہ دعا  افطاری سے پہلے پڑھنی ہے یا  بعد میں ،   مختلف احادیث میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں ، جس سے تینوں باتوں کے اشارے ملتے ہیں ، بعض سے معلوم ہوتا ہے

کہ یہ دعا پہلے پڑھی جاتی ہے اور بعض سے درمیان اور بعض سے آخر میں پڑھنے کا اشارہ ملتا ہے، لہذا کسی ایک قول پر اصر ار کرنا اور اس دعا کے افطار کے بعد پڑھنے کو ہی سنت کہنا درست نہیں ہے،  جو  بعد میں پڑھے اس پر بھی نکیر نہیں کرنی چاہیے اور جو پہلے پڑھے اسے بھی منع نہیں کرنا چاہیے۔

Leave a Comment