اعتکاف کی دعا، مسجد میں روحانی اعتکاف اور خلوت کا ایک اسلامی عمل، اس مدت کے دوران اپنے آپ کو صرف اور صرف اللہ کے لیے وقف کرنے کے نمازی کے ارادے کا اظہار ہے۔
اس دعا کو پڑھنے سے فرد اپنے اعتکاف کے پورے سفر میں اللہ سے رہنمائی، قبولیت اور سہولت کا طالب ہوتا ہے۔ اعتکاف عبادت میں اضافے، عکاسی اور الہی کے ساتھ تعلق کا ایک وقت ہے،
اور یہ دعا اس مقدس مدت کے دوران عبادت میں مشغول ہونے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے مخلصانہ عزم کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے۔
اعتکاف کی دعا
اعتکاف کی کوئی مخصوص دعا نہیں، البتہ نبی کریم ﷺ نے رمضان المبارک میںلا إله إلا اللهکہنے، مغفرت طلب کرنے، جنت مانگنےاوردوزخ سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، لہذا اعتکاف کے دوران بھی کثرت سے یہ دعا مانگنی جائے:
’’لَا إِلٰهَ إِلَّا الله، أَسْتَغْفِرُ الله، أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ النَّارِ‘‘.
نیز یہ دعا بھی کثرت سے مانگے:
’’اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعَفُ عَنِّي‘‘.
اعتکاف کی نیت
واضح رہے کہ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے، زبان سے مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز، روزہ، زکاۃ وغیرہ کی نیت کرنا نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ ہی سنت، لہذا دل میں ارادہ کرلینا ہی نیت کے لیے کافی ہے، اور اگر کوئی زبانی نیت کرلیتاہے تو اس میں حرج بھی نہیں ہے، ہاں جس شخص کا دلی ارادہ الفاظ کہے بغیر مجتمع نہ ہوتا ہو، اس کے لیے الفاظ سے نیت کرنا مستحب ہے۔ہر عمل کی نیت کا یہی حکم ہے۔ لہذا اعتکاف کی نیت کا بھی یہی حکم ہے۔ مذکورہ الفاظ کہہ لینا بھی جائز ہے، واجب یا سنت نہیں ہے۔
اعتکاف کی نیت حسب ذیل ہے:
“میں اللہ کے لیے اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہوں، اس کی خوشنودی اور قرب کی تلاش میں۔ میں اعتکاف کی مدت تک مسجد میں اعتکاف کرنے، عبادت، نماز اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے کا عہد کرتا ہوں۔ میری روحانیت کو گہرا کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی خواہش، اے اللہ میرے اعتکاف کو قبول فرما اور مجھے اس بابرکت وقت سے زیادہ سے زیادہ عبادت اور غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرما۔
یہ ارادہ کرنے سے، ایک شخص اعتکاف کے لیے اپنی لگن کو باضابطہ بناتا ہے اور مسجد میں خلوت کی پوری مدت میں اللہ سے اجر اور روحانی ترقی کی تلاش پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے۔
عتکاف کی فضیلت
نیز اعتکاف میں اللہ تعالیٰ کے گھر میں قیام کرکے تقربِ باری تعالیٰ کا حصول ہے،دنیا سے منہ موڑنا اور رحمتِ خداوندی کی طرف متوجہ ہونا اور مغفرتِ باری تعالیٰ کی حرص کرنا ہے ۔
اور معتکف کی مثال ایسے بیان فرمائی گئی ہے گویا کوئی شخص کسی کے در پر آکر پڑجائے کہ جب تک مقصود حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک نہیں لوٹوں گا، معتکف اللہ کے در پر آکر پڑجاتاہے کہ جب تک رب کی رضا اور مغفرت کا پروانا نہیں مل جاتا وہ نہیں جائے گا، ایسے میں اللہ کی رضا ومغفرت کی قوی امید بلکہ اس کے فضل سے یقین رکھنا چاہیے۔
نفسِ اعتکاف ان عبادات میں سے ہے جو پچھلے انبیاءِ کرام علیہم السلام کے زمانے سے چلی آرہی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی ان کا ذکر فرمایاہے،
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے بعد طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لیے اسے (بیت اللہ) پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ہے۔
گویا طواف ونماز کی طرح اعتکاف بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا خاص ذریعہ ہے کہ باری تعالیٰ اپنے دو برگزیدہ پیغمبروں کو معتکفین کی خدمت اور ان کے اعزاز میں مسجدِ حرام کی صفائی اور خدمت کا حکم ارشاد فرمارہے ہیں۔
conclusion
اعتکاف اسلام میں ایک خاص اور رضاکارانہ عمل ہے جہاں ایک شخص اپنے آپ کو مسجد میں تنہا کرتا ہے، اپنا وقت عبادت، نماز اور غور و فکر کے لیے صرف اور صرف اللہ کے لیے وقف کرتا ہے۔ اعتکاف کے لیے نیت ضروری ہے، کیونکہ یہ روحانی اعتکاف کی بنیاد رکھتا ہے اور اللہ کی رضا اور قرب کے حصول کے لیے بندے کے مخلصانہ عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔
اعتکاف کے دوران، فرد کا مقصد دنیاوی خلفشار سے منقطع ہونا اور اپنے آپ کو عبادت اور اللہ کی یاد میں غرق کرنا ہے۔ یہ خود کی تجدید، معافی مانگنے، اور الہی کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کا وقت ہے۔